انڈیا میں 17 روز سے سرنگ میں پھنسے تمام 41 مزدوروں کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا

0

انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کی ایک سرنگ میں پھنسے 
41 مزدوروں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ امدادی کارکن 17 روز سے اس ریسکیو آپریشن کے دوران سلکیارا کی زیر تعمیر سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو نکالنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی پر آنے والی تصاویر میں کارکن ایمبولینس سے بحفاظت باہر آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ان مزدوروں کو ایمبولینس کے ذریعے براہ راست چنیالیسور کے مرکز صحت لایا جا رہا ہے جہاں ان کا علاج کیا جائے گا۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی اور مرکزی وزیر وی کے سنگھ ان کے استقبال کے لیے موقع پر موجود ہیں۔

انھوں نے ریسکیو کیے جانے والے مزدورں کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے اور وہاں موجود لوگوں نے تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔

بی بی سی کے نامہ نگار اننت جھانے کے مطابق سرنگ کے قریب گاؤں میں آتش بازی بھی کی گئی اور آس پاس کے لوگ جشن میں مٹھائیاں بھی تقسیم کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہونے سے یہ 41 مزدور وہاں پھنس گئے تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو بچانے کے لیے ریاستی اور مرکزی حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ فوج، مختلف تنظیموں اور سرنگ کے عالمی شہرت یافتہ ماہرین نے حصہ لیا۔

اتراکھنڈ حکومت نے کہا کہ یہ کامیابی وزیر اعظم مودی کی مضبوط قیادت اور وزیراعلیٰ دھامی کے عزم کی وجہ سے حاصل ہوئی۔

انڈین وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’ہمارے مزدور بھائیوں کے بچاؤ آپریشن کی کامیابی سب کو جذباتی کرنے والی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں سرنگ میں پھنسنے والے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کی ہمت اور صبر سب کو متاثر کر رہی ہے۔ میں آپ سب کی صحت اور تندرستی کی دعا کرتا ہوں، یہ بہت اطمینان کی بات ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد۔ ہمارے یہ دوست اب اپنے پیاروں سے ملیں گے۔ اس مشکل وقت میں ان کے اہل خانہ نے جس صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا، اس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔‘

کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے سوشل میڈیا سائٹ پر لکھا ’پورا ملک کارکنوں کے حیرت انگیز صبر اور حوصلے کو سلام کرتا ہے۔ قوم پوری ریسکیو ٹیم کی لگن، مہارت اور استقامت 
کو بھی سراہتی ہے اور تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔‘


واضح رہے کہ انڈین ہمالیہ میں 4.5 کلومیٹر طویل سلکیارا سرنگ کا ایک حصہ 12 نومبر کو منہدم ہو گیا تھا۔ واقعے کے فوراً بعد پھنسے ہوئے افراد سے رابطہ قائم ہوا اور تب سے وہ آکسیجن، خوراک اور پانی حاصل کر رہے تھے۔

ابتدائی دنوں میں مزدوروں کو سرنگ سے نکالنے کی کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ ملبہ ہٹانے کے لیے وہاں استعمال ہونے والی مشینیں ملبہ نہیں ہٹا سکی تھیں۔

حکام کے مطابق سرنگ میں ملبے کو سامنے سے ڈرلنگ کر کے ہٹانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ناکامی کے بعد عمودی طور پر بھی ڈرلنگ کی کوشش کی گئی۔

حکام نے بتایا کے یہ تمام طریقے ناکام ہونے کے بعد پہاڑ کی چوٹی سے درختوں کو ہٹا کر وہاں ڈرلنگ مشین رکھی گئی۔

سرنگ میں پھنسے ایک مزدور کے والد بھی ریسکیو کے وقت وہاں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے بھی ان کا ایک بیٹا ایک تعمیراتی مقام کے حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں ان کا
 دوسرا بیٹا بھی اس حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سفر کے اخراجات کے لیے اپنی بیوی کا زیور گروی رکھا۔

یہ ریسکیو مشن اتنا مشکل کیوں تھا؟
ریسکیو ٹیم کے ایک اہلکار نے ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ سرنگ میں سوراخ کرنے کی وجہ سے اوپر سے مٹی اور ملبہ گر رہا تھا۔

حکومت کی ہائی وے اینڈ انفراسٹرکچر کمپنی این ایچ آئی ڈی سی ایل کا کہنا تھا کہ اندر سے دھماکے جیسی آواز بھی سنی گئیں، جس کی وجہ سے ڈرلنگ کرنے والے اہلکار کئی بار واپس باہر نکل آئے۔

این ایچ آئی ڈی سی ایل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سرنگ کے مزید گرنے کے امکان کے پیش نظر ریسکیو آپریشن کو کئی مرتبہ روکا گیا۔‘

ٹنل بنانے والی اس کمپنی نیویگ انجینئرنگ لمیٹڈ کے دو ذمہ داران نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سرنگ پر کام سنہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔

ان میں سے ایک نے بتایا کہ سرنگ پر کام شروع ہونے سے تھوڑا پہلے اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا، جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تھا۔

زیر تعمیر سرنگ چاردھام کے پرجوش منصوبے کا حصہ ہے، جو بدری ناتھ، کیدارناتھ، یامونوتری اور گنگوتری کے ہندو یاتری مقامات سے رابطے کو بڑھانے کے لیے ایک اقدام تھا۔

یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا جو یہاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اس پروجیکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور کام کرنے والی برنارڈ گروپ نامی آسٹریئن جرمن کمپنی کے مطابق یہ شروعات سے ہی ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ یہ سرنگ کے پروجیکٹ کے آغاز سے ہی ٹینڈر دستاویزات میں پیش گوئی سے زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا۔

ارضیاتی لحاظ سے ہمالیہ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ نسبتاً کم مستحکم ہے۔ اس کے وجہ سے یہاں مناسب اقدامات اور بے حد احتیاط کے بغیر کوئی بھی تعمیر مزید تباہی اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اس سرنگ کو کئی حصوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے تاہم اس کے گرنے کی اصل وجہ تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔

ہمالیہ میں سرنگوں کے احتیاطی تدابیر کے ماہر معظم ظہیر ملک کا کہنا ہے کہ ’سرنگ گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارضیاتی عدم استحکام، سرنگ پر متوقع بوجھ، اس کے اندر بنائی گئی سپورٹ سسٹم کا ناقص ہونا، اس کے اندر پانی کا جانا یا انسانی غلطیاں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اس حادثے کے بنیادی وجہ ارضیاتی عدم استحکام ہی نظر آ رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانیں غیر مستحکم ہیں تو یہ سرنگ اوپر کے وزن سے یا بیرونی عوامل جیسے زلزلے یا شدید بارش کی وجہ سے گر سکتی ہیں۔‘

ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی وجوہات ہیں اور انسانی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ عمل ملبے کے مسلسل طور پر گرنے سے نمایاں ہوتا ہے، جس کہ وجہ سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا رہا ہے۔

Tags

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)